Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 4

منزل عشق قسط  4
ہانیہ پریشانی سے اپنی ماں کے پاس بیٹھی تھی جو ابھی تک ہوش میں نہیں آئی تھی۔
"بی پی شوٹ کر گیا ہے انکا بیٹا بہت میں نے دوائی دی ہے امید ہے نارمل ہو جائے گا ۔۔۔"
ڈاکٹر نے ہانیہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا تبھی ہانیہ کی نظر دروازے میں سے آتے شایان اور جانان پر پڑی،جنت اور معراج بھی پریشانی کے عالم میں انکے ساتھ تھے۔
"خالہ۔۔۔۔"
ہانیہ روتے ہوئے اٹھی اور جانان سے لپٹ گئی۔
"ششش فکر مت کرو ہانی کچھ نہیں ہو گا ہماری وانیا کو پلیز رو مت۔۔۔"
جانان نے نم آنکھوں سے کہا پھر اسکی نظر اپنی چھوٹی بہن پر پڑی تو آنکھیں مزید روانی سے بہنے لگیں۔
" تم فکر مت کرو بس زرش کا خیال رکھو میں وجدان کے پاس جا رہا ہوں۔۔۔"
شایان نے جانان کو بتایا اور باہر کی طرف چل پڑا۔
"مم۔۔۔۔میں بھی سسس۔۔۔ساتھ چلتا ہوں۔۔۔"
معراج کے ایسا کہنے پر شایان نے اثبات میں سر ہلایا اور اسے لے کر وہاں سے چلا گیا۔
"وانیا۔۔۔۔میری وانیا۔۔۔۔"
زرش کو ہوش آیا تو وہ وانیا کو پکارنے لگی۔
"مما۔۔۔"
ہانیہ زرش کی طرف لپکی اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔
"ہانی میری وانی وہاں۔۔۔۔اسے بچا لو ہانی۔۔۔۔وہ وہ تو بہت معصوم ہے اتنا ڈر جاتی ہے ۔۔۔۔"
زرش زاروقطار روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔جانان اور ہانیہ اسے سنبھال نہیں پا رہی تھیں۔
"وو۔۔۔وجدان کہاں ہیں جانان وجدان کو فون کرو ان سے کہو میری وانی کو لے کر آئیں۔۔۔۔۔ اسے کچھ ہو گیا تو میں مر جاؤں گی۔۔۔۔"
"نہیں زرش۔۔۔۔"
جانان نے خود بھی روتے ہوئے اپنی چھوٹی بہن کو خود میں بھینچا۔
"تم فکر مت کرو زری وجدان بھائی ضرور وانیا کو بچا لیں گے بھروسہ رکھو۔۔۔۔"
جانان نے روتے ہوئے زرش سے کہا لیکن اس ماں کو کہاں سے حوصلہ آنا تھا جسکی معصوم بچی اس وقت درندوں کے درمیان تھی۔
"پتہ نہیں جانان میری بچی کس حال میں ہو گی۔۔۔۔وہ تو اپنے سائے سے بھی ڈرتی ہے۔۔۔۔وہ نہیں سہہ پائے گی یہ خوف۔۔۔۔"
زرش نے روتے ہوئے کہا تو جانان نے اسے خود سے لپٹا لیا۔
ہانیہ یہ سارا منظر بے بسی سے کھڑی نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔پھر اسنے غصے سے اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار پر مارا اور وہاں سے چلی گئی۔
                     ❤️❤️❤️❤️
وانیا کافی دیر سے اپنے گھٹنوں میں سر دیے روتے جا رہی تھی لیکن روتے ہوئے بھی اسکے حلق سے ایک آواز بھی نہیں نکلی تھی۔
ابھی اس نقاب پوش آدمی نے ان سب کو یہی کہا تھا کہ جسکی ہلکی سی آواز آئی وہ اسکی گولی کا نشانہ ہو گا۔
"بابا۔۔۔۔کہاں ہیں آپ۔۔۔"
وانیا نے بغیر آواز کیے فریاد کی اور پھر سے رونے لگی۔اس وقت یونی کے کچھ سٹوڈینٹ کو مین حال میں بندوقیں تان کر قید کیا گیا تھا جبکہ باقی کے سٹوڈینٹ شاید آڈیٹوریم میں قید تھے۔
دو لڑکوں کو تو وہ نقاب پوش وانیا کے سامنے ہی گولی مار چکے تھے اور وہ منظر یاد کر کے وانیا پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"کس کی رونے کی آواز نکلی۔۔۔۔؟"
ایک شخص کے دھاڑ کر پوچھنے پر وانیا نے فوراً اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیے اور اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹنے لگی لیکن وہ خطرناک شخص اب اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
"تم کھڑی ہو لڑکی۔۔۔۔"
اس نقاب پوش نے جب وانیا کو کہا تو خوف سے اسکی روح فنا ہو گئی۔وہ کانپتی ٹانگوں پر اٹھی اور سر جھکا کر رونے لگی۔
"نام کیا ہے تمہارا؟"
اس نے وانیا کے قریب آ کر پوچھا۔
"ووو۔۔۔۔ وانیا۔۔۔۔"
"پورا نام بتاؤ۔۔۔"
اسکے غصے سے چلانے پر وانیا بری طرح سے سہم گئی اور خوب سے کانپنے لگی۔اسے اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی تھی۔
"وانیا۔۔۔۔وجدان خان۔۔۔"
وانیا کے جواب پر اس آدمی کی آنکھوں میں ایک چمک آئی تھی۔
"بیٹھ اور اب آواز نہ آئے ورنہ۔۔۔۔"
اس آدمی نے اپنی بڑی سی بندوق وانیا کے سر پر رکھی تو وانیا نے فوراً بیٹھ کر اپنا منہ بہت زور سے ہاتھوں سے دبا لیا۔
لیکن دل ہی دل میں وہ پھر سے اپنی اور باقی سب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔
"ہمیں بچا لیں یا اللہ پاک میرے بابا کو بھیج دیں۔۔۔۔کسی مسیحا کو بھیج دیں ہمیں بچانے کے لیے۔۔۔"
اس نے روتے ہوئے دعا مانگی اور پھر سے اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپا گئی۔
                      ❤️❤️❤️❤️
"اور کتنا وقت ضائع کریں گے ہم لوگ اس یونیورسٹی میں میری بیٹی ہے ابھی تک تو ہمیں وہاں ہونا چاہیے تھا"
وجدان جو غصے اور کرب سے بے قابو ہو رہا تھا جنرل شہیر کو چلا کر کہنے لگا جو خود بھی بہت پریشان نظر آ رہے تھے۔
"لیفٹیننٹ وجدان وہاں صرف آپکی نہیں بہت سے ماں باپ کی اولادیں ہیں اور ہمیں سب کو بچانا ہے۔۔۔"
جنرل شہیر نے وجدان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"جنرل شہیر باقی کے جنرل میٹنگ میں آپکا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔"
ایک سپاہی اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا اور سیلیوٹ کرتے ہوئے جنرل شہیر کو بتانے لگا۔
"ہاں میں آ رہا ہوں۔۔۔"
جنرل شہیر کے ایسا کہنے پر وہ وہاں سے چلا گیا تو انہوں نے وجدان کو دیکھا جو بہت زیادہ بے چین تھا۔
"تم فکر مت کرو اس میٹنگ میں فیصلہ ہو جائے گا کہ ہم اس مسلے کا کیا حل نکالیں۔۔۔"
جنرل شہیر نے اپنی ٹوپی پہنتے ہوئے کہا اور باہر کی طرف چل دیے۔
"رابطہ ہوا آپکا ان سے چاہیے کیا ان دہشتگردوں کو؟"
وجدان نے انکے ساتھ چلتے ہوئے بے چینی سے پوچھا تو جنرل شہیر نے گہرا سانس لیا۔
"راگا۔۔۔۔انہیں راگا چاہیے لیفٹیننٹ۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر جنرل شہیر میٹنگ روم میں چلے گئے اور وجدان بے چینی سے ٹہلنے لگا۔
راگا کے بارے میں وہ بھی جانتا تھا۔وہ ایک انتہائی خطرناک دہشت گرد تھا جسے بہت مشکلوں کے بعد آرمی پکڑنے میں کامیاب ہوئی تھی۔راگا اتنا خفیہ تھا کہ اسکا اصلی نام تک کوئی نہیں جانتا تھا۔وہ اور اس کے ساتھی ملک میں بہت سے فساد پھیلانے میں ملوث رہے تھے لیکن اب جب وہ ان کی گرفت میں تھا تو اس کی آزادی کے لئے اس کے ساتھی اس قسم کے گھٹیا کاموں پر اتر آئے تھے۔
راگا کو آزاد کرنا آرمی کے لیے اتنا آسان بھی نہیں تھا وہ شخص ملک میں ہونے والے برے کاموں کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا۔اسے آزاد کرنے کا مطلب اس ساری معلومات کو بھی آزاد کرنا تھا جسے ابھی تک راگا نے بہت سا ٹارچر سہنے کے باوجود نہیں بتایا تھا۔
لیکن اب دوسری طرف بھی بہت سے معصوم بچوں کی جانوں کا سوال تھا تھا۔
ابھی وجدان انہیں سوچوں کے زیر اثر تھا جب تمام جنرل کمرے سے باہر آئے۔وجدان بے چینی سے جنرل شہیر کی جانب بڑھا۔
"فیصلہ ہو گیا ہے وجدان ہم اتنے بچوں کی زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتے۔۔۔۔ہم راگا کو آزاد کر رہے ہیں۔۔۔"
جنرل صاحب کی بات پر وجدان کو افسوس ہوا لیکن اس وقت حکمت عملی کا مظاہرہ یہی تھا۔
"تم تیار رہو کچھ ہی دیر میں ہم لوگ یونیورسٹی کے لیے نکلیں گے۔۔۔"
وجدان نے پریشانی سے انہیں دیکھا۔
"کوئی اور راستہ نہیں کیا سر؟ راگا کو پکڑنا بہت بڑی پراگریس تھی ہمارے لیے اور اب۔۔۔۔کیا ہم انکا مقابلہ نہیں کر سکتے؟"
وجدان کے سوال پر جنرل شہیر نے انکار میں سر ہلا دیا۔
"نہیں وجدان مقابلہ کرنے لگے تو بچوں کی جان پر خطرہ ہے ہمیں یہ نہیں کرنا اسی لیے چیف آف آرمی کا فیصلہ یہی ہے کہ راگا کو آزاد کر دیا جائے۔"
وجدان نے اثبات میں سر ہلا کر انہیں سیلیوٹ کیا اور وہاں سے چلا گیا۔کرنل صاحب اپنے آفس میں آئے اور ٹوپی اتار کر میز پر رکھی۔
کافی سوچنے کے بعد انہوں نے اپنا موبائل پکڑا اور ایک نمبر ملانے لگے۔
"ایجنٹ بی۔۔۔۔۔ پلین بی کے حساب سے چلنا ہو گا۔۔۔۔"
جنرل شہیر نے ماتھا سہلاتے ہوئے آہستہ سے کہا۔
"آل رائٹ سر ۔۔۔"
ایجنٹ بی نے کانفیڈینس سے کہا تو جنرل صاحب نے فون بند کیا اور گہرا سانس لیتے ہوئے پریشانی کے عالم میں آفس سے باہر نکلے۔
                    ❤️❤️❤️❤️
جنرل شہیر اس کال کوٹھڑی میں داخل ہوئے جہاں راگا کو قید کیا گیا تھا۔زخموں سے چور وہ شخص ابھی بھی غرور کے عالم میں فرش پر بیٹھا جنرل شہیر کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
"کیا ہوا فوجی کوئی نیا طریقہ سوچ کر آیا ہے کیا میری زبان کھلوانے کا۔۔۔؟"
راگا نے ہنستے ہوئے پوچھا تو جنرل صاحب کا دل کیا کہ اسکا منہ توڑ دیں۔
"ہم تمہیں آزاد کر رہے ہیں راگا۔۔۔"
اس بات پر راگا نے چہرے پر آتے لمبے بال ہٹاتے ہوئے جنرل کو حیرت سے دیکھا پھر قہقے لگا کر ہنسنا شروع کر دیا۔
"اوئے لالے کی جان چھا گئے نا میرے
دوست۔۔۔۔میں نے تو کہا تھا جنرل کہ ایک دن تو خود راگا کو یہاں سے نکالے گا اور دیکھ آج وہ دن آ ہی گیا۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔جیت گیا راگا جنرل۔۔۔۔راگا جیت گیا۔۔۔۔"
اچانک راگا اپنی بیڑیوں سمیت اٹھا اور جنرل شہیر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
"اب یہاں سے باہر جاتے ہی راگا پہلے سے بھی بڑی دہشت بنے گا جنرل دیکھ لینا تم۔۔۔"
راگا نے خباثت سے مسکراتے ہوئے کہا اور مڑ کر واپس دیوار کی طرف چل دیا۔
"ہاں راگا تم جیت گئے لیکن تمہاری یہ جیت تمہاری زندگی کی طرح کتنی عارضی ہے اس کا تمہیں بہت جلد اندازہ ہو جائے گا۔ پاک فوج کے جوان سر پر کفن باندھ کر آتے ہیں اپنے گھروں سے راگا پھر وہ تجھ جیسے شیطان یا اس کے چیلوں سے نہیں ڈرتے۔۔۔۔"
راگا نے مڑ کر جنرل شہیر کو دیکھا۔
"کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ جیت گئے تو غازی کہلائیں گے اور اگر ہار گئے نا راگا تو بھی وطن کے جھنڈے میں لپٹ کر دفن ہونا ان کے لیے سب سے بڑی جیت ہوتی ہے۔۔۔۔"
جنرل شہیر کی باتوں پر راگا کے ہونٹوں پر بس ایک طنزیہ مسکان آئی تھی۔جنرل صاحب ساتھ آئے سپاہیوں کی جانب مڑے۔
"گرفت میں لے لو اسے اور چلو جتنی جلدی ہو سکے ہمیں یونیورسٹی پہنچنا ہے۔۔۔"
سپاہیوں نے راگا کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اسے لے کر باہر آئے جہاں فوج کی گاڑی انکا انتظار کر رہی تھی۔راگا کو اس گاڑی میں بیٹھایا گیا اور بہت سی گاڑیاں اس گاڑی کے آگے پیچھے چلتی ہوئی وہاں سے جانے لگیں۔
"فوج راگا کو لے کر نکل چکی ہے کال کچھ ہی دیر میں وہ
وہاں پر پہنچ جائیں گے۔۔۔"
فوج کی وردی میں چھپے ایک غدار نے اپنے ساتھی کو خبر دی اور پھر وہ بھی اپنے سردار کی آزادی پر خوشی سے مسکرا دیا۔
                       ❤️❤️❤️❤️
"خوشخبری ہے ساتھیو راگا کچھ ہی دیر میں ہمارے پاس ہو گا آزاد۔۔۔۔"
کال نے اپنے نقاب پوش ساتھیوں کو اطلاع دی تو سب خوشی سے مسکرا دیے۔
"لیکن ہمیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہو گی پاک فوج کو ہلکے میں مت لینا کبھی بھی کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔"
کال نے سب کو محتاط کرتے ہوئے کہا۔
"لیکن ہم یہاں سے نکلیں گے کیسے کال فوج بہت زیادہ ہو گی اور ہمیں چاروں طرف سے گھیر لے گی مجھے نہیں لگتا کہ راگا کو یہاں سے نکالنا آسان ہو گا۔۔۔"
ایک نقاب پوش نے اپنا خدشہ ظاہر کیا تو کال اپنے سیاہ نقاب کے پیچھے مسکرا دیا۔
"فکر مت کر اسکا حل بھی ہے میرے پاس بس ایک بار راگا یہاں پہنچ جائے۔۔۔۔تیاری رکھو تم لوگ اور خاص سپاہیوں کے علاؤہ کوئی بھی اندر داخل نہیں ہو گا۔۔۔۔"
"ٹھیک ہے کال۔۔۔"
ایک آدمی نے کہا اور باقیوں کو اشارہ کرتا پوزیشن سنبھالنے لگا تقریباً ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ لوگ باہر بہت سے گاڑیوں کا شور سن سکتے تھے۔
کال نے اپنے دو ساتھیوں کو انہیں اندر لانے کا کہا اور خود ہاتھ میں پکڑے سیٹلائٹ فون کو منہ کے پاس کرنے لگا۔
"ہم نکلنے کے لیے تیار ہیں ویرہ سب تیار رکھنا تم۔۔۔"
"ٹھیک ہے ۔۔"
ویرہ کے ایسا کہتے ہی کال نے کھڑکی کی جانب دیکھا جہاں اب رات کے سائے لہرا رہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد جنرل شہیر اور وجدان کچھ سپاہیوں کے ساتھ راگا کو لے کر اس ہال میں داخل ہوئے جو بلکل خالی تھا ضرور وہ لوگ سٹوڈینٹس کو کہیں اور شفٹ کر چکے تھے۔
"یہ رہا راگا اب سب بچوں کو آزاد کرو۔۔۔"
جنرل شہیر نے راگا کی جانب اشارہ کیا جو بیڑیوں میں جکڑا مسکرا رہا تھا پھر کال کو دیکھتے ہی جنرل کے پاس سے ہٹا اور اسکے پاس آ کھڑا ہوا۔
"آزادی مبارک راگا۔۔۔۔۔"
کال نے ہلکے سے کہا اور پھر ساتھیوں کو اشارہ کرتے ہوئے اپنی بندوقیں اٹھا کر فوجی جوانوں پر تان دیں جو پہلے سے ہی اپنی بندوقوں کا رخ انکی جانب کر کے کھڑے تھے۔
"ٹھیک ہے فوجی تم لوگ جاؤ یہاں سے ہم خود یہاں سے غائب ہو جائیں گے۔۔۔"
کال نے کہا تو جنرل شہیر مسکرا دیے۔
"اتنی آسانی سے نہیں۔۔۔۔"
انہوں نے وجدان کو اشارہ کیا تو وجدان نے اپنے کان سے لگی ڈیوائس میں 'اٹیک' کہہ کر  اپنی بندوق اٹھائی اور باقی سپاہیوں کی مدد سے ایک ساتھ ہال میں چھپے چار دہشت گرد مار گرائے۔جبکہ وہ باہر سے بھی بندوقوں کی آواز سن سکتے تھے۔
"بابا۔۔۔۔!!!"
ابھی وجدان کی بندوق کا رخ پانچویں دہشتگرد کی جانب تھا جب اسکے کانوں میں ایک روتی ہوئی آواز پڑی تو وجدان فوراً مڑا اور وانیا کو دیکھا جو ایک نقاب پوش کی گرفت میں سٹپٹا رہی تھی۔
وجدان نے آگے بڑھنا چاہا تو نقاب پوش نے فوراً ایک ریوالور وانیا کی کن پٹی پر رکھا۔
"نہ نہ لیفٹیننٹ تھوڑی سی چالاکی اور اور تمہاری بیٹی کی جگہ اسکی لاش ہو گی زمین پر۔۔۔اب اپنے سپاہیوں کو اندر آنے سے روکو فوراً۔۔۔۔"
کال کے ایسا کہنے پر وجدان فوراً رکا اور بے بسی سے جنرل شہیر کی طرف دیکھا۔جنرل شہیر نے بھی ہاں میں سر ہلایا تو وجدان نے سپاہیوں کو رکنے کا حکم دیا۔
"ہم بھی جانتے تھے کہ اتنی آسانی سے تم ہمیں یہاں سے جانے نہیں دو گے۔۔۔کچھ تو سوچنا تھا نا ہم نے بھی فوجی۔۔۔۔"
کال نے ہنستے ہوئے کہا اور راگا کو دیکھا جو کہ ایسا لگ رہا تھا کہ ہر چیز سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
"چلو اب مڑو اور کوئی بھی ہوشیاری کی تو ایک سیکنڈ لگے گا تمہاری اس بیٹی کی جان لینے میں۔۔۔"
کال نے وانیا کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا جو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے وجدان کو دیکھ رہی تھی۔
"بابا۔۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔"
وانیا نے وجدان کی جانب بڑھنا چاہا تو کال نے اسکے بالوں پر اپنی پکڑ مظبوط کی اور اپنی بندوق اسکی کمر پر رکھ دی ۔وجدان بھی نم آنکھوں کے ساتھ بے بسی سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہا تھا۔
"مڑو تم لوگ اور پانچ منٹ سے پہلے کسی نے پلٹ کر دیکھا تو انجام اس لڑکی کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"
کال کے چلانے پر بھی وجدان نہیں مڑا تو جنرل صاحب نے وجدان کا ہاتھ تھام کر اسے مڑنے کا اشارہ کیا۔
"بات مانو لیفٹیننٹ۔۔۔فکر مت کرو یونیورسٹی کی چاروں طرف فوج ہے وہ نکل نہیں پائیں گے۔۔۔۔"
جنرل شہیر نے آہستہ سے کہا اور مڑ کر کھڑے ہو گئے۔انکے مڑتے ہی کال نے اپنا ہاتھ وانیا کے منہ پر رکھا اور گلے کے پاس مخصوص نس دبا کر اسے بے ہوش کر دیا۔
راگا اور باقی ساتھیوں کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ زمین میں بنائی گئی جس خفیہ سرنگ سے یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے اسی سے باہر نکلنے لگے جو کہ یونیورسٹی سے کافی فاصلے پر جا کر کھلتی تھی۔
انکے جانے کی آواز سنائی دی تو وجدان اور باقی سپاہی فورا مڑے۔
"اٹیک سولجرز۔۔۔۔"
وجدان نے باقیوں کو آرڈر دیا اور خود بے چینی سے وانیا کی تلاش میں بھاگنے لگا لیکن بہت ڈھونڈنے کے باوجود نہ تو راگا اور اسکے ساتھیوں کا کچھ پتہ چلا تھا نہ ہی وانیا کا۔
وہ لوگ بزدلوں کی طرح اپنے عام سے ساتھیوں کو مرنے کے لیے چھوڑ کر جا چکے تھے۔
                   ❤️❤️❤️❤️
"دہشت گرد مارے جا چکے ہیں اور اب سب یونیورسٹی کے سٹوڈینٹس کو آزاد کر دیا گیا ہے۔۔۔۔"
شایان جو کچھ دیر پہلے ہی گھر واپس آیا تھا اس نے خود کو ملنے والی خبر سنائی تو سب نے اللہ کا شکر ادا کیا۔جانان نے مسکرا کر زرش کو دیکھا اور اسکے آنسو پونچھے۔
"سنا تم نے زرش سب ٹھیک ہے اب تم فکر مت کرو دیکھنا وجدان بھائی وانیا کو لے کر آتے ہی ہوں گے۔۔۔۔"
زرش نے بھی نم آنکھوں سے آسمان کو دیکھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا۔ہانیہ جو دروازے میں کھڑی تھی آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔
"بس اب کوئی نہیں روئے گا۔۔۔صبح سے سب رو رو کر مجھے بھی رولا رہے ہیں۔۔۔"
جنت نے روتے ہوئے کہا تو سب اسکی بات پر مسکرا دیے۔ساری رات انتظار کرنے کے بعد تقریباً فجر کے وقت باہر سے گاڑی کی آواز پر سب بے چینی سے دروازے کی طرف بڑھے۔
زرش نے گاڑی میں سے معراج کے ساتھ وجدان کو اترتے دیکھا تو روتے ہوئے اسکی جانب گئی۔
"وانیا کہاں ہے وجدان۔۔۔۔آپ اسے ساتھ لائے ہیں نا کہاں ہے وہ۔۔۔وانیا۔۔۔"
زرش وجدان کو چھوڑ کر گاڑی کی جانب لپکی جس میں ڈرائیونگ سیٹ پر  بس ایک ڈرائیور تھا۔
"وانیا کہاں ہے وجدان؟"
زرش نے وجدان سے پوچھا جو سر جھکائے کھڑا تھا جبکہ اپنے باپ کا جھکا سر دیکھ کر ہانیہ کو بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔
"وہ لے گئے اسے زرش۔۔۔وہ لوگ ہماری وانیا کو لے گئے۔۔۔۔میں انہیں روک نہیں پایا۔۔۔۔میں کچھ نہیں کر پایا۔۔۔۔"
وجدان نے زرش کو کندھوں سے تھام کر روتے ہوئے کہا لیکن زرش میں تو رونے کی ہمت بھی نہیں بچی تھی وہ بس بے جان ہو کر وجدان کی باہوں میں جھول گئی۔
                     ❤️❤️❤️❤️

   0
0 Comments